
About Us in Urdu
مختصر تعارف
نومبر 1919 ء میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام مل میں آیا ، 1857 ء کی پہلی جنگ آزادی جسے انگریز نے غدر کا نام دیا ، اسے بغاوت قرار دے کر انگریز نے نی سے کچل دیا اور جبر واستبداد کے ذریعہ پورے ہندوستان پراپی حکومت مسلط کردی ۔ 1916 ء میں برطانوی اقتدار کے خلاف آخری سی کوشش جسے حضرت شیخ الہند کی ۔ ریشمی رومال تحریک کے نام سے جانا جا تا ہے ۔ وہ بھی ناکام ہوئی ، آپ کو اپنے رفقاء کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا ، انگریز کی سازشوں کی وجہ سے ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا زوال ہو گیا اورا تاترک کمال پاشا کی لا د ی حکومت مسلط کر دی گئی ۔ان حالات میں شہر امرتسر میں خلافت میٹی کا اجلاس بلایا گیا تھا ۔ اس میں شریک علماء نے محسوس کیا کہ ملت اسلامیہ کی رہنمائی کے لئے علماء کی قیادت میں ایک عظیم کا قیام ضروری ہے ۔ چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحب شاہجانپوری کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام مل میں آیا اور حضرت شیخ الہند مو واکسن اس کے پہلے صدرقرار پاۓ ۔ جزيرة مالٹا کے قید خانے میں تین سالہ اسیری کے دوران حضرت شیخ الہند نے ہندوستان کے حالات پر خوب غور کیا ۔ عمرشریف 80 سال سے بڑھ چکی تھی ۔ رہائی ۔ کے بعد 1919 ء میں ہندوستان واپسی ہوئی تو تحریک خلافت اور انڈین نیشنل کانگریس نے انگریزوں کے خلاف ترک مولات اور غیر سلح متحد ہ جد و جہد کا خاکہ پیش کیا ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس کے موقعہ پر اپنے صدارتی خطبے میں ترک موالات کے نکات کو واضح کیا ۔ 1920 ء
میں جمعیۃ علماء نے اس تجویز کو 474 علماء کے دستخط کے فتوے کی شکل میں
شائع کیا جو تمام بڑے شہروں میں بڑے بڑے مجمعوں میں پڑھا گیا اوراسے سول نافرمانی قرار دے کر چوٹی کے علماء کوانگر یز نے گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا ، اسی قوی نے پورے ملک میں آزادی کی روح پھونک دی۔ترک موالات سے لیکر مل آزادی کا نعرہ 1926 ء میں جمعیۃ علماء ہی نے دیا جسے انڈین مسل کانگریس نے 1931 بطور قرار داد منظور کیا۔اس طرح جمعیۃ علماء ہی نے ملک کی آزادی کویح رخ دیا ۔ اور کانگریس کے دوش بدوش آزادی کی جنگ میں حصہ لیا ۔ مهاتما گاندمی کوتر یک آزادی کا رہنما بنانے کی تجویز حضرت شیخ الہند نے ہی پیش کی تھی اور جمعیۃ علماء کے فنڈ سے ملک میں ان کے دورے کراۓ گئے ۔ انگریز نے مذہب کے نام پرلڑانے کی کوشش کی تو جمعیۃ نے متحدہ قومیت کا نظریہ پیش کیا۔اقلیتی واکثریتی فرقہ پرستی کے خلاف داعلی محاذ پر بھی جمعیۃ علماء کو بڑی جد و جہد کرنی ۔ پڑی۔اس لئے جمعیۃ نے تقسیم ملک کی سخت مخالفت کی ۔ 1947 ء میں جب ملک آزاد ہوا تو ساتھ ہی ملک کی تقسیمل میں آئی ۔ جب یہاں جمہوری طرز پر حکومت بنائی گئی تو جمعیۃ علماء نے پارلیمانی انتخاب کی سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا اور جمعیۃ علماء ہند کے نام سے ملت اسلامیہ کی معاشی تعلیمی ترقی ، دینی اصلاح ، اورتعمیری پروگرام کو اپنے دستور میں شامل کیا ۔ ملک کے مختلف شہروں میں مسلم فنڈ محاکم شرعیہ قائم کئے ۔ دینی تعلیمی بورڈ اور ادارۂ مباحث فقیہ قائم کئے ۔ ملک گیر پیانہ پر اصلاح معاشر تحریک چلائی ۔ سب سے اہم مسئلہ شمالی صوبوں میں اجڑے ہوۓ اور سرحد پار سے لٹے پٹے مہاجر مسلمانوں کی باز آبادکاری کا تھا ، دنگا بازیوں اور فسادیوں کے جنون کا مقابلہ اور خوف و ہراس میں مبتلا مایوں مسلمانوں کی ڈھارس بندھانا جمعیۃ کا اولین فریضہ تھا ، مجاہدمت مولا نا حفظ الرمن صاحب اور شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی نے انتہائی جرئتمندی
کے ساتھ اپنی اور ساتھیوں کی جان کو خطرے میں ڈال کر میدان میں اتر کر کام کیا ۔ آہستہ آہستہ حالات سنبھلے تو اوقاف کی بازیابی دی وعصری تعلیم معاشی استحکام کے مسائل کھڑے ہوگئے ۔ 1937 ء میں جمعیۃ علماء نے اپنی بھر پور کوشش سے شریعت بل منظور کرالیا جو سلم پرسل کے نام سے جانا جا تا ہے ، آزادی کے بعد دستور ہند میں اقلیتی حقوق کو شامل کر نے کے لئے بڑی جد و جہد سے کا میابی حاصل کی مسلمانوں کی دی تعلیم ، عمری تعلیم کے سلسلے میں عام بیداری پیدا کر نے کے لئے بڑے بڑے کنونشن منعقد کئے ۔ 1956 ء میں سورت کے اجلاس میں پہلی مرتبہ جمعیت نے ہی آبادی کے تناسب سے ریزرویشن کا مطالبہ رکھا تھا ، لگا تارکوشش کی وجہ سے آج مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی میں ایجنڈے کے سر فہرست مقام حاصل کر چکا ہے ، تمام سیاسی پارٹیاں اور خود حکومت اس کی ضرورت کو محسوس کر نے کی ہے ، ملک میں ہندو قوم پرستوں کی شرارت سے پچھلے ساٹھ سالوں میں دس ہزار فسادات ہوۓ میں مسلمانوں کا جانی مالی ز بر دست نقصان ہوا ہے ، ہر جگہ سب سے پہلے پہنچ کر جمعیۃ نے راحت رسانی اور باز آبادکاری کے لئے اپنی ساری طاقت جھونک دی اور مسلمانوں کو جینے کا حوصلہ دیا ، جب بھی مرکزی یاکسی صوبائی حکومت نے حق وانصاف سے ہٹ کر غلط پالیسی بنائی جس سے اقلیتوں کے حقوق پر زد پڑتی ہے اور نا انصافی کی گئی تو جمعیۃ حرکت میں آ گئی اور حکومتوں کو للکارا ہے ، دستور کی بحالی ، اقلیتی حقوق ، سیکولرزم اور انصاف کے عنوان پر بڑے بڑے اجتماعات بلاۓ اور صاف اور کھلا ذہن رکھنے والے چوٹی کے لیڈروں کو بولنے کی دعوت دے کر حکومت تک آواز پہنچائی ، یہانتک کہ فرقہ پرست عناصرا کیلے اور کمزور پڑ گئے ۔ آزادی کے بعد جمعیت کی بیدارمغزی ، بروقت موئر عملی اقدامات اور جہد سلسل کی
وجہ سے آج مسلمان ملک میں اپنے جائز دستوری حقوق اپنے دی شخص اور مذہبی کردار کے ساتھ ملک میں باعزت شہری کی حیثیت سے زندگی گذار رہا ہے اکثریتی طبقے میں فرقہ پرستی کے زہراور حکوئی سا پر مسلمانوں کے ساتھ مسلسل اقیازی برتاؤ کی وجہ سے مسلمان تعلیمی اقتصادی پسماندگی کا شکار ہے ، اسی لئے سیکولر طاقتوں کو اکھٹا کرنے پڑھاوادینے اور حق وانصاف کا نعرہ دینے کے لئے جمعیۃ نے تحریکیں چلائیں اور حکومت کو متوجہ کرنے کے لئے ملک وملت بچاؤ کے نام پر جیل بھر دتر یک چلائی ، اپنے کئی اہم اور بنیادی مطالبات منواۓ ہیں ۔ گجرات زلز کے درنسل کش فسادات میں ہزاروں عورتیں اور بچے بے گھر ہو گئے تو کچھ کے علاقے میں چودہ سے زیادہ چلڈرنس ویج ( children village ) بچوں کے لئے قیام گا ہیں اور اسکول بناۓ اور بیواؤں کو بھی روزگار پر لگایا ۔ 2006 ء میں جب تمل ناڈو کے ساحلی علاقے میں سنامی کی وجہ سے زبردست تباہی آئی تو فوری راحت رسانی کے لئے کیمپوں میں پہنچ کر ہر طرح کی امداد پہنچائی ، نا گا پٹنم اور کوۓ کم میں زمین خرید کر دوسو کے قریب مکانات تعمیر کر کے بے سہارا ، اجڑے ہوۓ خاندانوں کو بسایا ۔ کشمیر میں پہاڑی علاقوں میں زلزلے سے بہت سارے مسلمان بے گھر ہوگئے تو جہاں حکومت نہیں پہنچ سکی تھی جمعیۃ نے پہنچ کر سردی اور برف باری سے بچانے کے لئے 140 مکانات بناۓ اور ان کو سہارا دیا ۔ آسام میں نسلی ولسانی تعصب کو ہوا دے کر جب مسلمانوں کے 70 گاؤں کو ہلا دۓ گئے اور انہیں بھگا دیا ، بے گھر اور بے روز گار کر د یا تو بہت بڑے پیانے پر جمعیت نے کیمپوں میں پناوگز میں بے سہارا لوگوں کی ہر طرح سے مدد کی اورز مین خرید کر دو بار و نہیں بسایا۔اپنے صرفے سے 500 مکانات تعمیر کئے ۔
مظفرنگر کے حالیہ فسادات میں سب سے پہلے آگے بڑھ کر جمعیۃ علماء راحت رسانی کے کام میں سرگھٹامل ہے۔صوبائی حکومت کی کوتاہی پر مولا تامودا سعد مدنی نے ختح سے للکارا ہے اور برخاستگی کا مطالبہ کیا ہے ۔ اپنی نظیمی طاقت کو مضبوط کرنے کے لئے ہر دوسال میں ملک بھر میں مقامی شہری ضلعی وصوبائی سطح ابتدائی ممبر سازی کے بعد انتخابات کے ذریعہ عہد یداران کا انتخاب کراتی ہے ۔ ہیئت حاکمہ میں باوقارنجیدہ اور دردمندعلاءارکان کی حیثیت سے شامل کئے جاتے ہیں ، ہر بالغ مردوعورت 2 روپے کی رسید کٹوا کر جمعیۃ کا ابتدائی رکن بن سکتا ہے ۔ الحمد للہ ملک بھر جمعیۃ کے سوا کروڑ ممبر ہیں اور یہی ایک محب وطن ، صاف ذہن اور ترقی پسند باوقارمسلمانوں کی تنظیم ہے جو چپہ چپہ میں چھائی ہوئی ہے ۔ ملک کے تماممسلمانوں کی قدیم اور نمائندہ جماعت ہے