اسلام میں ہندو مذہب کی طرح شادی ثقافت نہیں، مگر گزارا بھتہ دینا ہو گا:کرناٹک ہائی کورٹ

اسلام میں ہندو مذہب کی طرح شادی ثقافت نہیں، مگر گزارا بھتہ دینا ہو گا:کرناٹک ہائی کورٹ

بنگلور، (ایجنسیاں) کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اسلام میں شادی کئی معنوں میں ایک کانٹریکٹ  ہے۔ یہ ہندو مذہب کی طرح شادی ثقافت نہیں ہے۔  شادی ٹوٹنے پر کچھ حقوق اور ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑا جا سکتا ہے۔ ہائی کورٹ نے بنگلور کے بھونیشوری نگر میں رہنے والے 52 سال کے اعجاز الرحمان کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ رحمان نے ہائی کورٹ سے فیملی کورٹ کو 12 اگست 2011 کو دیئے گئے حکم کو خارج کرنے کی اپیل کی تھی۔ رحمان نے 25 نومبر 1991 کو شادی کے کچھ مہینوں بعد 5 ہزار روپے کی مہر پر بیوی سائرہ بانو تین طلاق دے دیا تھا۔ کچھ دن بعد ہی  رحمان نے دوسری عورت سے شادی کی اور ایک بچے کا باپ بن گیا۔ سائرہ نے 24 اگست 2002 کو گزارا بھتہ کے لیے ہر جانے کی مانگ کرتے ہوئے کیس دائر کر دیا۔  

فیملی کورٹ نے رحمان کو ہر مہینے سائرہ کو گزارا بھتہ کے لیے 3 ہزار روپے دینے کا حکم دیا تھا۔ کورٹ نے کہا تھا کہ سائرہ ہر مہینے پیسے پانے کی حقدار ہے۔ اس کی دوبارہ شادی ہونے یا موت ہونے تک اسے یہ مقررہ رقم ملنی چاہئے ۔ رحمان کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس کرشنا ایس دیکشت نے کہا کہ اسلام میں شادی ثقافت نہیں ہے لیکن طلاق ہونے پر ذمہ داریوں سے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلاق کے بعد فرائض بھولے نہیں جا سکتے۔ بے سہارا بیوی کو طلاق دیئے جانے پر گزارا بھتہ دیئے جانے کا قانون ہے۔ عدالت نے قرآن مجید کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان شخص کو اپنی بے سہارا سابقہ بیوی کو اخلاقی اور مذہبی فرائض کا خیال کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے لئے گزارا بھتہ دینا چاہئے۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ اسلامی قانون کے مطابق مہر کو ایک طرح سے لڑکی کو ملنے والا جہیز مانا جاسکتا ہے ہائی کورٹ نے کہا کہ اسلامی قانون کے مطابق مہر کو ایک طرح سے لڑکی کو ملنے والا جہیز مانا جاسکتا ہے